حضرت عمر رضی اللہ عنہ کون تھے

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کون تھے 

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا شمار اسلام کے دوسرے خلیفہ اور صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔ ان کا لقب “فاروق” ہے، جو انہیں نبی کریم ﷺ نے دیا تھا، جس کا مطلب ہے حق اور باطل میں فرق کرنے والا۔

ابتدائی زندگی

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے ایک معزز قبیلے سے تھا۔ ان کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی اور جوانی میں وہ تجارت سے وابستہ رہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قد بلند، جسم مضبوط اور طبیعت سخت تھی۔ ان کی زبان میں سچائی اور انصاف کی طاقت تھی۔

اسلام  قبول کرنا

حضرت عمر رضی اللہ عنہ شروع میں اسلام کے شدید مخالف تھے اور مسلمانوں کو ستاتے تھے۔ لیکن ان کے دل میں اللہ نے ہدایت کی روشنی ڈالی اور ایک دن وہ اپنی بہن کے گھر قرآن کی تلاوت سنتے ہوئے ایمان لے آئے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو کھل کر اسلام کی تبلیغ کرنے کی آزادی دی اور خود بھی اسلام کے ایک مضبوط ستون بنے۔

خلافت

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ان کی خلافت کا دور دس سال تک رہا (634-644 عیسوی)۔ ان کے دور خلافت میں اسلامی ریاست نے بے پناہ ترقی کی اور فتوحات حاصل کیں۔ عراق، شام، مصر اور ایران جیسے علاقے اسلامی ریاست کا حصہ بنے۔

عدل وانصاف

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت عدل و انصاف کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھا بلکہ غیر مسلموں کے حقوق کی بھی حفاظت کی۔ ان کے دور میں عوام کے مسائل کے حل کے لیے مختلف ادارے قائم کیے گئے اور انصاف کے نظام کو مضبوط بنایا گیا۔

شھادت

حضرت عمر رضی اللہ عنہ 644 عیسوی میں شہید ہوئے۔ ان پر ایک مجوسی غلام، ابو لؤلؤ فیروز نے مسجد نبوی میں نماز کے دوران حملہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں بہت سے اہم فیصلے کیے جنہوں نے اسلامی ریاست کو مضبوط کیا اور بعد میں آنے والے خلفاء کے لیے ایک مثالی نمونہ فراہم کیا۔

 کارنامے

المال کا قیام: عوامی فلاح و بہبود کے لیے خزانہ قائم کیا۔عدلیہ کا نظام: قاضی مقرر کیے اور عدلیہ کا نظام مضبوط کیا۔فوجی اصلاحات: فوج کو منظم کیا اور فوجی اڈے قائم کیے۔شہروں کی ترقی: نئے شہر آباد کیے اور انتظامیہ کو منظم کیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور خدمات اسلام کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی گئی ہیں۔ ان کے عدل و انصاف اور انتظامی صلاحیتوں کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

Leave a Comment