شیخ الہند، مولانا محمود حسن دیوبندی، ہندوستان کے عظیم عالم دین، مجاہد آزادی اور دیوبند تحریک کے سرکردہ رہنما تھے۔ آپ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو علم، اصلاح اور آزادی کے لیے وقف کر دیا۔ ان کی شخصیت اور کارنامے کو سمجھنے کے لیے مختلف پہلوؤں سے ان کی زندگی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
شیخ الہند مولانا محمود حسن 1851 میں بریلی کے ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام مولوی ذوالفقار علی تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور پھر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ یہاں آپ نے مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی جیسے عظیم اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ دیوبند میں تعلیم کے دوران ہی آپ نے عربی، فارسی، حدیث، تفسیر اور فقہ میں مہارت حاصل کی۔
تدریسی خدمات
تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیخ الہند نے دارالعلوم دیوبند میں تدریس کا آغاز کیا۔ آپ نے تقریباً پچاس سال تک دارالعلوم دیوبند میں حدیث کی تعلیم دی۔ آپ کی تدریس کا انداز منفرد تھا اور طلبہ کو آپ سے بہت فیض پہنچا۔ آپ کی تدریسی خدمات کے نتیجے میں آپ کو “شیخ الہند” کا لقب دیا گیا۔
سیاسی اور سماجی خدمات
شیخ الہند کا شمار ان علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی اور سماجی میدان میں بھی خدمات انجام دیں۔ آپ نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کو انگریزی سامراج سے نجات دلانے کے لیے سرگرم جدوجہد کی۔ آپ نے تحریک ریشمی رومال کی قیادت کی، جو کہ ایک خفیہ تحریک تھی جس کا مقصد انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا تھا۔ اس تحریک کی منصوبہ بندی اور اس کی قیادت کے الزام میں آپ کو گرفتار کر کے مالٹا بھیج دیا گیا۔
قید وبند اور آخری ایام
شیخ الہند کو انگریزوں نے 1916 میں گرفتار کیا اور مالٹا کی جیل میں قید کر دیا۔ آپ تقریباً تین سال تک جیل میں قید رہے۔ 1920 میں رہائی کے بعد آپ نے ہندوستان واپس آ کر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ تاہم، قید و بند کی مشکلات اور جسمانی کمزوری کے باعث آپ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے اور 30 نومبر 1920 کو دیوبند میں انتقال کر گئے۔